Tag Archives: zardari

ھائے کرپشن

 وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے بعض وزرا اور اہم شخصیات کے شدید دبائو پر حکومت کی مدت پوری ہونے سے 23 روز قبل 40ارب روپے کی سبسڈی اور باقاعدہ طریقہ کار کے تحت منظور نہ ہونے والے بعض منصوبوں کی 2 ارب روپے کی ادائیگیوں سے انکار پر موجودہ دور حکومت کی سب سے طاقتور ترین سمجھی جانے والی بیورو کریٹ وفاقی سیکرٹری نرگس سیٹھی کو تبدیل کرکے ان کی جگہ صدر زرداری پر نواز شریف دور میں بننے والے کرپشن کے مقدمات کے شریک ملزم اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر کے طور پر آصف زرداری کیلیے پی ایس او کی خدمات انجام دینے والے گریڈ 21کے جونیئر افسر رائے سکندرکو پانی و بجلی کی وزارت کاقائمقام سیکرٹری مقرر کر دیا جبکہ وزارت کے اسپیشل سیکرٹری حمایت اللہ خان گریڈ 22 ‘ایڈیشنل سیکرٹری ارشد مرزا بھی نئے قائمقام سیکرٹری سے سینئر ہیں۔  انتہائی ذمہ دار حکومتی ذرائع کے مطابق نرگس سیٹھی سے نہ صرف وفاقی وزیر پانی و بجلی چوہدری احمد مختار ،وفاقی وزیر امورکشمیر منظور وٹو بلکہ کئی انتہائی اہraja-parveez-asharafم شخصیات بھی ناراض تھیں جس پر نرگس سیٹھی نے خود وزیراعظم کودرخواست کی تھی کہ ان سے وزارت پانی و بجلی کا چارج واپس لیا جائے ۔کابینہ ڈویژن کی سیکرٹری نرگس سیٹھی جنہیںچندماہ قبل ظفر محمودکی جگہ پانی وبجلی کی وزارت کی سیکرٹری کا اضافی چارج دیا گیا تھا، نے چارج سنبھالنے کے بعد وزارت پانی و بجلی،این ٹی ڈی سی سمیت دیگراداروں میں اربوں روپے کی کرپشن روکنے کے لیے اہم اقدامات کیے،  جبکہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرانے، شہری اور دیہی علاقوں میںمساوی لوڈشیڈنگ کرنے کے اقدامات جبکہ وزارت میںبجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوںکے سی ای اوز کے ساتھ روزانہ 2 مرتبہ ویڈیوکانفرنس کے ذریعے لوڈ شیڈنگ کی تازہ صورتحال اور کار کردگی کا جائزہ لیتی رہی ہیں، وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے ایکسیئنز اور ایس ڈی اوز کے تبادلوں کی سفارشیںبھی مستردکر دیتی تھیں۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر پانی و بجلی چوہدری احمد مختار نے نرگس سیٹھی کو سفارش کی تھی کہ این ٹی ڈی سی کے ایم ڈی کے عہدے پر گوجرانوالہ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے قائمقام چیف ایگزیکٹو آفیسر محبوب عالم کو تعینات کیا جائے اور محبوب عالم کی جگہ سپرنٹنڈنٹ انجینئر جاوید آزاد کو چیف ایگزیکٹو آفیسر لگایاجائے جس پر نرگس سیٹھی نے یہ کہہ کر وفاقی وزیر کے احکامات ماننے سے انکارکر دیا کہ محبوب عالم ایم ڈی کے عہدے کے لیے انتہائی جونیئر آفیسر ہیں اس عہدے پر انہیں تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اہم عہدہ ہے جس کیلیے سینئر اور اہل آفیسر ہی تعینا ت کیا جائیگا جبکہ محبوب عالم کے پاس چیف ایگزیکٹو کا عہدہ بھی عارضی طو رپر ہے ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کی گئی چار رکنی کمیٹی جس میں وزیردفاع ،وزیر امور کشمیر ،سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری پانی و بجلی شامل تھے،کمیٹی کے اجلاسوںمیں میاںمنظور وٹو کے دباؤ پر سابق سیکرٹری خزانہ را نا واجد اور نرگس سیٹھی نے بجلی کے ٹیوب ویلوں کوفلیٹ ریٹ دینے کے لیے 40 ارب روپے کی سبسڈی دینے کی شدید مخالفت کی تھی۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ق) اور دیگر بعض اہم وزرا کی طرف سے بعض ایسی کمپنیوںکو اربوں روپے کی جعلی ادائیگی کے لیے بھی نرگس سیٹھی پر دبا و ڈالا گیا تھا تاہم نرگس سیٹھی نے ایسی ادائیگیاں کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔

اک مرد قلندر

قاضی حسین آج ہم میں نہیں رہے لیکن دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہی لوگ زندہ رہے جو انسانیت کی خدمت کرسکے اس کے علاوہ دوسروں کی حیثیت دیوار پر لگے کلینڈر جیسی رہی جسے سال گزرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور وہ کسی کو یاد بھی نہیں ہوتے۔ آج ماڈرن سائنس بھی یہ ماننے پر مجبور ہے کہ نیکی اور خدمت مرنے کے بعد بھی انسان کو مرنے نہیں دیتیں قوموں کی زندگی میں رول ماڈل ضروری ہوتے ہیں جو ان کی تاریخ رقم کرتے ہیں ہمارے پاسQazi Sahib بدقسمتی سے سیاستدان اور حکمران بہت ہیں لیکن لیڈر کم بقول نیلسن منڈیلا سیاستدان اگلے الیکشن کی فکر کرتا ہے لیکن لیڈر اگلی نسل کی فکر کرتا ہے ۔جب آپ روشنی میں ہوتے ہیں تو ہر چیز آپ کے پیچھے ہوتی ہے اور جب اندھرے میں ہوتے ہیں تو سایہ بھی پیچھا چھوڑ دیتا ہے۔ قاضی صاحب جیسے لوگوں نے ساری زندگی اقتدار سے زیادہ اقدار کی فکر کر نے میں گزار دی۔ تاریخ میں کتنے حکمران، ان کے اتحادی اور حواری قبرستان کی مٹی بنے مگر احترام بہت کم لوگوں نے کمایا عہدے اور حکمرانی تو ڈھلی چھائوں ہیں۔ تاریخ کا سفر رہتی دنیا تک چلتا رہے گا اور جو لمحہ گزر گیا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا پر اس کی گونج کہیں نہ کہیں زندہ رہے گی۔  پاکستان کی سیاسی تاریخ قاضی حسین احمد کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔

’’اماں!بھائی کب مرے گا؟‘‘

 عرصہ ہواایک ترک افسانہ پڑھا تھا، یہ میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل گھرانے کی کہانی تھی، جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگاہوا تھا، آخر اسی حالت میں ایک روز بچوں کو یتیم کرگیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے باربار باہر نکل کر سامنے والے سفیدمکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے، وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہورہا ہے، جب بھی قدموں کی چاپ آتی انہیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آرہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے روٹی کے کچھ سوکھے ٹکڑے ڈھونڈ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلاپھسلاکر سلادیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی ’’تلاش‘‘ کے بعد دوچار چیزیں نکل آئیں، جنہیں کباڑیے کو فروخت کرکے دو، چار وقت کے کھانے کا انتظام ہوگیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہوگئے تو پھر جان کے لالے پڑگئے، بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا، ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچون کی دکان پر جاکھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہوکر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نہ صرف صاف انکار کردیا، بلکہ دوچارباتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔ ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اوپر سے مسلسل فاقہ، 8سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بخار میں مبتلاہوکر چارپائی پر پڑگیا، دوادارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ تک نہیں تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جبکہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبارہی تھی، اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگاکر بولی ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا ’’میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ بچی معصومیت سے بولی ’’ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!‘‘

 

 

 

پیپلزپارٹی کی حکومت کے چارسال مکمل

پیپلزپارٹی کی حکومت کے چارسال مکمل ہوچکے ہیں۔ صدراوروزیراعظم اس پر داد طلب ہیں۔ ادھرملک بھرکے عوام کے صبرکا پیمانہ لبریزہوچکاہے۔ ہرطرف احتجاج ہے‘ مظاہرے ہیں اور حکمرانوں کے خلاف نعرے,۔یکم اپریل سے ایک بارپھرتیل وگیس کی قیمت میں ظالمانہ اضافہ کرنے پرتاجرتک بلبلااٹھے ہیں۔ تاجربرادری نے سول نافرمانی کی دھمکی دے دی اور ٹرانسپورٹرز کرائے بڑھانے کا اعلان کررہے ہیں‘ پنجاب میں توکرائے بڑھابھی دیے گئے۔ ان چاربرسوں میں بدامنی‘ مہنگائی اور بیروزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہواہے‘ صنعتیں بندہورہی ہیں‘ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بے حال ہیں۔ اونچے ایوانوں کے روزکے اخراجات بڑھتے جارہے ہیں۔ ان چاربرسوں میں حکومت نے اتنا قرض چڑھالیاہے جو قیام پاکستان کے بعد سے چارسال پہلے تک لیے جانے والے قرض سے زیادہ ہے۔ جہاں منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے ریکارڈ توڑا گیا وہیں قرض لینے کا بھی نیا ریکارڈ قائم کیاگیا۔ یہ قرض حکمران نہیں عوام اداکریں گے اس لیے حکمرانوں کو کوئی فکر بھی نہیں کہ وقت آیا تو وہ اپنا سامان سمیٹ کر ایوانوں سے چلتے بنیں گے

واہ وکیل صاب

وزیراعظم کے وکیل اورسینیٹ میں نئے قائدایوان بیرسٹراعتزازاحسن پاکستان کے روشن خیال دانشوروں میں ایک اہم نام ہیں۔ ان کی فکرودانش کا ان کے مخالفین بھی احترام کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے اور وزیراعظم پرتوہین عدالت کے الزام میں ’’فرد جرم ‘‘ عائد ہونے کے بعد اعتزازاحسن نے اپنی زندگی کے سب سے مشکل مقدمے کا دفاع شروع کیاہے۔ اس مقدمے میں بیرسٹر اعتزازاحسن کے دلائل نے دوستوں اور ناقدوں سب کو شرمندہ کرنا شروع کردیاہے۔ وہ کوئی تکنیکی نکتہ سامنے نہیں لاسکے ہیں۔  گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں وزیراعظم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وکیل صفائی بیرسٹر اعتزازاحسن نے کہاکہ عدالت نے وزیراعظم کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے ہیں حالانکہ وہ پیراورگدی نشین ہیں۔ روشن خیال حضرات ایک جملہ بار باراستعمال کرتے ہیں کہ وہ پاپائیت اور تھیوکریسی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ویسے تو اسلام میں پاپائیت کا کوئی وجود نہیں ہے‘ لیکن وکیل صفائی بیرسٹر اعتزازاحسن نے وزیراعظم کا یہ استحقاق بیان کیاہے کہ چونکہ وہ پیر اورگدی نشین ہیں اس لیے ان کے بارے میںسخت الفاظ استعمال نہیں کیے جانے چاہئیں تھے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ہمارے ملک کا لبرل اور روشن خیال طبقہ کس تضاد فکری کا شکارہے۔ جدیدیت تو ویسے بھی کسی طبقے کا تقدس قبول نہیں کرتی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے ریاست کے سب سے بڑے منصب دارکو استثنیٰ کے ’’مقدس‘‘ منصب پرفائزکیاہواہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج وزیراعظم کی صفائی پیش کرنے کے لیے اعتزاز احسن کو اس لیے موقع مل گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو ضرورت سے زیادہ مہلت دے دی ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا لبرل طبقہ بھی بے نقاب ہوگیاہے۔